امریکہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوابوں کو ریکارڈ کرنے اور ان کی تعبیر یا مطلب معلوم کرنے کا آلہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک سائنسی جریدے میں کچھ محققین نے لکھا ہے کہ انھوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جو کہ دماغ میں ہونے والی تحریک کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس تحقیق کے نگران سائسندان ڈاکٹر مورن سرف کا کہنا ہے کہ ’ہم لوگوں کے خواب پڑھنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد دخل در معقولات نہیں بلکہ خواب کے بارے میں اپنے علم کو وسیع کرنا ہے۔
صدیوں سے خواب لوگوں کے لیے ایک معمہ بنے رہے ہیں جبکہ قدیم مصر میں خوابوں کو خدا کی طرف سے پیغام تصور کیا جاتا تھا۔
جدید دور میں نفسیاتی ماہرین خوابوں کے ذریعے سوئے ہوئے دماغ کی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن خوابوں کی تشریح صرف انسان کے بیدار ہونے کے بعد ہی اس کا خواب معلوم کر کے کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر سرف کے منصوبہ کا مقصد ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے جس کے ذریعے ماہرین نفسیات لوگوں کے خوابوں کی تصدیق دماغ میں جاری تحریک کو ریکارڈ کرکے کریں گے۔
ڈاکٹر سرف کا کہنا ہے کہ اس سوال کا کہ انسان خواب کیوں دیکھتے ہیں کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ انسان کا دماغ خواب کس وقت دیکھنا شروع کرتا ہے۔
ڈاکٹر سرف نے جو دعوی کیا ہے اس کی بنیاد وہ ابتدائی تحقیق ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کہ کسی ایک خلیے یا نیوران میں پیدا ہونے والی تحریک کسی خاص تصور یا چیز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر انھوں نے دریافت کیا ہے کہ ایک رضاکار جب مارلن منورو کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک خاص نیوران یا خلیہ روشن ہو جاتا ہے۔
رضاکاوروں کو مختلف عکس دکھا کر ڈاکٹر سرف اور ان کے ساتھی مختلف اشیاء اور تصورات کے نیوران کا تعین کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کو انھوں نے مریضوں کے اعداد شمار اکھٹا کرنے میں استعمال کیا۔
رضاکاروں کو جن چیزوں اور شخصیات کی تصوریں دکھائی گئی تھیں ان میں بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن، ایفل ٹاور اور کئی مختلف مشہورلوگ شامل تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس چیز کا مشاہدہ کرنے سے کہ کونسا دماغی خلیہ کب اور کس چیز سے روشن ہوتا ہے وہ موثر طور پر کسی شخص کا دماغ پڑھ سکتے ہیں۔
انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس مشاہدے کو ایک ایسے آلے یا ’ڈریم کیچر‘ میں ڈھالنے کے درمیان طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ لیکن ان کے خیال میں یہ ممکن ہے اور وہ اسطرح کا آلہ بنانے کی کوشش کریں گے۔
اس تحقیق میں اگلا مرحلہ میں عالم خواب میں رضاکاروں کے دماغوں میں پیدا ہونے والی تحریک کو ریکارڈ کرنا ہے۔
تحقیق کرنے والے بیدار دماغ کے مشاہدے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے خوابیدہ دماغ میں پیدا ہونے والی تحریک سے تقابل کرنے کے بعد تصوریوں اور تصورات کا تعین کر سکتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار یا ایک رضا کار کے فلم دیکھتے ہوئے اس کے دماغ میں روش ہونے والے خلیوں کا ریکارڈ جمع کر کے حاصل کیا جا سکتےہیں۔
ایک ماہر نفسیات اور خوابوں کے ماہر ڈاکٹر راڈرک اونر کا کہا ہے کہ اس طرح کا محدود استبصار نصابی دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے لیکن اس سے خوابوں کی تشریح کرنا یا ان کی تعبیر معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے لیے خوابوں کے پیچدہ بیان کی ضرورت ہو گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس تکنیک میں ایک مشکل یہ ہو گی انفرادی نیوران کے مشاہدے کے لیے جس طرح کے جزئیات درکار ہیں وہ دماغی کے اندر آپریشن کرکے الیکٹروڈز لگا کر ہی حاصل کیئے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سرف کا کہنا ہے کہ سینسر ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس سے آخر کار دماغ کے اندر پیدا ہونے والی تحریک بغیر آپریشن اور الیکٹروڈ لگا کر ممکن ہو سکتی ہے۔
اس نے کہا کہ اگر یہ ممکن ہو گیا تو یہ وسیع امکانات پیدا کر دےگا۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کے دماغ پڑھنا ایک زبردست پیش رفت ہو گی اور خاص طور پر ایسے لوگوں کے جو بات چیت نہیں کر سکتے یا کوما میں ہوں۔
0 comments:
Post a Comment